اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ کے مطابق، امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر نے غزہ پر امریکی
قبضے اور 20 لاکھ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے اپنے متنازعہ استعماری منصوبے سے
دستبرداری کا عندیہ دے دیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ
وہ مصر اور اردن کو فلسطینیوں کو قبول کرنے پر آمادہ کر لیں گے، لیکن انھوں نے یہ
اعتراف بھی کیا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ مصر اور اردن نے اس میں تعاون کرنے
سے صاف انکار کر دیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے امریکہ کو تجویز دی کہ وہ فلسطینیوں کو اپنا وطن
چھوڑنے کے بجائے اس ملک پر قابض ہونے والے یہودیوں کو آلاسکا منتقل کرے۔
نیتن یاہو نے سعودی عرب سے
کہا کہ وہ اپنی وسیع عریض سرزمین میں نیا فلسطین قائم کرے لیکن وہاں سے ایرانی
وزیر خارجہ کی تجویز دہرائی گئی اور اور وہ یہ کہ ٹرمپ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین
سے نکالنے کے بجائے آلاسکا منتقل کرے اور جب وہ گرین لینڈ پر قبضے کا خواب پورا
ہونے کے بعد انہیں گرین لینڈ میں بسا دیں۔
یورپ میں امریکہ کے اتحادی
ممالک سمیت دوسرے ممالک کی طرف سے شدید مخالفت کا اظہار سامنے آیا اور امریکہ کے
اندر سے بھی شدید مخالفت کا اظہار کیا گیا اور دنیا بھر میں اس استعماری اعلان کے
خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
امریکی صدر، جو ایک تجارت
پیشہ شخص ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پیسہ دے کر سب کچھ خریدا جا سکتا ہے، چنانچہ انھوں
نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ امریکہ مصر اور اردن کو ہر سال اربوں ڈالرز
دیتا ہے، اس کے باوجود اس نے انکار کر دیا ہے، جو حیران کن ہے!
بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے
تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ: میں یہ منصوبہ زبردستی نافذ نہیں کروں گا، یہ محض
ایک تجویز تھی!
واضح رہے کہ رواں ماہ کے
آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر امریکی قبضے اور تباہ شدہ سمندری
انکلیو کی فلسطینی آبادی کو بے گھر کرنے کی حمایت کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مصر اور
اردن کو بے گھر فلسطینیوں کو قبول کرنے کے لیے قائل کر لیں گے تاہم ایسا ممکن نہ
ہو سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔
نکتہ:
غزہ کو اپنی ملکیت بنانے
کا ٹرمپ کا استعماری منصوبہ تھا، یہ محض ایک تجویز نہیں تھی ورنہ اس کی اتنے عرصے
سے وکالت کاری نہ کرتے اور آخرکار یہ نہ کہتے کہ "اسرائیل غزہ پر جنگ مسلط
کرے گا، غزہ پر قبضہ کرے گا اور پھر غزہ کو امریکہ کے سپرد کرے گا"، لیکن اس
نادان شخص نے اس حقیقت کو یکسر اثرانداز کیا تھا کہ جو اسرائیل 16 مہینوں میں ـ لاکھوں
ٹن گولہ بارود گرانے، غزہ پر جارحیت کرنے، 60 ہزار کے قریب فلسطینیوں کو قتل کرنے
اور غزہ کے 80 فیصد حصے کو کھنڈر بنانے اور اور فلسطینیوں کو طویل عرصے تک فاقے
کرانے کے باوجود ـ غزہ پر قبضہ نہیں کر سکا اور اپنا کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکا،
وہ مستقبل میں اس علاقے پر کیونکر قبضہ کر سکے گا؟
ٹرمپ غزہ میں امریکی ـ
اسرائیلی شکست کا ازآلہ کرنے کے لئے، جنگ کے بعد، غزہ کو فتح کرنا چاہتے تھے!! اور
میدان میں ہاری ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر جیتنا چاہتے تھے مگر فلسطینیوں کے عزم
جہاد اور مسلم ممالک ـ بالخصوص مصر اور اردن کے عدم تعاون کی وجہ سے ـ اپنے اس
استعماری فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
